Imam e Azam Darul Ifta

Darul Ifta

We have Islamic scholars for people who has internal issues & problems who gives the answer in the light of Quran o Hadees. Anyone can contact us our scholars give your answer weekly.


Questions & Answers

زنا سے حاملہ کا نکاح درست ہے۔ ١٢٠ دن کے بعد حمل ساقط کرایا تو یہاں (یعنی انڈیا میں) توبہ لازم ہے کفارہ نہیں۔ ✍ مفتی محمد صدام حسین برکاتی فیضی میرانی۔

کیا فرماتے ہیں علماۓ دین مسئلہ مندرجہ ذیل میں کہ ہندہ سے (معاذاللہ) فعل زنا سر زد ہو گیا پھر اس کا نکاح زید ( جو کہ غیر زانی ہے) سے ہو گیا اور پھر نکاح کے دو ڈھائ ماہ بعد ہندہ کو اس کے حمل زنا کا علم ہوا اب ہندہ نے اپنے شوہر اور دیگر اہل خانہ کی مرضی سے حمل کو ساقط کروادیا۔

(١)مطلوب سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں زید اور ہندہ کے نکاح کی صحت پر کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟ اس کو نکاح جدید کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ واضح رہے کہ جب ہندہ نے اسقاط حمل کرایا تو اس وقت اس کا حمل تقریباً ساڑھے چار ماہ کا ہو چکا تھا۔
(٢) کیا ہندہ کے اسقاط حمل پر ( جب کہ اس کا یہ فعل شوہر کی رضا سے ہوا) ہندہ یا اس کے شوہر پر کسی قسم کا کوئی کفارہ لازم آئے گا یا نہیں اور اگر لازم آئے گا تو جدید پیمانے کے اعتبار سے کتنا ہوگا ادلہ اربعہ کی روشنی میں بالتسھیل و بالتفصیل جلد از جلد جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں اور شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ مستفتی: محمد الیاس راعین مہین پوروہ بازار بہرائچ شریف یوپی انڈیا۔ بسم ﷲ الرحمن الرحیم الجواب-بعون الملک الوھاب- صورت مستفسرہ میں زید و ہندہ کا نکاح صحیح ہوگیا زنا کے حمل کی وجہ سے نکاح پر ہرگز کچھ اثر نہ پڑے گا کہ زنا کے پانی کی شرعاً کوئی حرمت نہیں ۔ حضور اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں: " زنا کے پانی کی شرع میں کوئی حرمت نہیں نہ زانیہ پر زنا کی عدت، یہاں تک کہ جس عورت کو زنا کا حمل ہوغیر زانی کو بھی باوجود حمل اس سے نکاح جائز، البتہ ازانجا کہ حمل غیر ہے تاوضع حمل جماع ناجائز ہے، درمختار میں ہے: صح نکاح حبلی من زنا وان حرم وطؤھا حتی تضع لئلایسقی ماءہ زرع غیرہ (یعنی زنا سے حاملہ عورت کے ساتھ نکاح جائز ہے اگرچہ نکاح کے بعد وطی حرام ہے تاوقتیکہ بچے کی پیدائش ہو تاکہ غیر کی کھیتی کواپنے پانی سے سیراب کرنے والا نہ بنے۔) " اھ ( فتاوی رضویہ مترجم, ج١٣, ص٣٠٠, کتاب الطلاق, باب العدۃ , مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
(٢) یہاں کوئی کفارہ لازم نہیں ہاں ہندہ اور اس کے اسقاط حمل سے راضی رہنے والے مشورہ دینے والے سخت گنہگار ہوئے ان پر توبہ لازم ہے کہ چار ماہ میں بچہ بن جاتا ہے اس کے بعد گرا نا حرام ہے۔

حضور اعلی حضرت رضی ﷲ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں: "اگر ابھی بچہ نہیں بنا جائز ہے ورنہ ناجائز کہ بے گناہ کا قتل ہے اور چار مہینے میں بچہ بن جاتا ہے " اھ (فتاوی رضویہ مترجم , ج٢٤, ص٢٠٢, مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

فتاوی بحر العلوم میں ہے: " بچہ کاحرامی ہونا اسقاط حمل کی ضرورت نہیں ۔ پس صورت مسئولہ میں دو گناہ ہوا ایک بلا ضرورت اسقاط ہوا اور دوسرے یہ کہ اگر استقرار کے ایک سو بیس دن بعد اسقاط ہوا تو گناہ ہوا تو جو لوگ کسی طرح شریک ہوئے یا رائے مشورہ میں شریک اور اسقاط پر راضی ہوئے سب مجرم و گنہگار ہوئے۔ " اھ (ج٢ , ص٦٠٩, مطبوعہ شبیر برادرز لاہور) واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

کتبہ گدائے حضور رئیس ملت محمد صدام حسین برکاتی فیضی میرانی۔ خادم میرانی دار الافتاء جامعہ فیضان اشرف رئیس العلوم اشرف نگر کھمبات شریف گجرات انڈیا۔ ١ شوال المکرم ١٤٤٣ھ مطابق ٣ مئی ٢٠٢٢ء

Contact : +917408476710 Mail : miranidarulifta@gmail.com, muftimdsaddamhusain@gmail.com